امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کئی پوسٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امریکہ نے ایران کی فضائی حدود پر “مکمل کنٹرول” حاصل کر لیا ہے۔
“ہم نے مکمل طور پر ایرانی فضائی حدود کا کنٹرول سنبھال لیا ہے،” ٹرمپ نے لکھا، “اگرچہ ایران کے پاس جدید ریڈار سسٹم اور دیگر دفاعی آلات ہیں، لیکن وہ امریکی ساختہ نظاموں سے کوئی مقابلہ نہیں کرتے۔”
یہ ریمارکس ایران اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تنازعے کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ برسوں سے، امریکہ اسرائیل کو خاطر خواہ فوجی امداد اور جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، جمعہ کو دونوں ممالک کے درمیان دشمنی میں بھڑک اٹھنے کے بعد، امریکی حکومت نے باضابطہ طور پر کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیوں میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔
ایک اور پوسٹ میں، ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس کو ایران کے سپریم لیڈر کے ٹھکانے کا علم تھا، اور انہیں “نام نہاد سپریم لیڈر” کہا۔ اس نے مزید کہا، “وہ ایک آسان ہدف ہے، لیکن وہ ابھی تک محفوظ ہے۔ ہم اسے ختم کرنے کا ارادہ نہیں کر رہے ہیں۔”
اس کے باوجود ٹرمپ نے سخت وارننگ جاری کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ شہریوں یا ہمارے فوجی اہلکاروں پر میزائل داغے جائیں۔ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
تیسری پوسٹ میں، سابق صدر نے ایران کے “غیر مشروط ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی بیان بازی کو بڑھایا۔
یہ بیانات وسیع تر علاقائی تنازعے کے بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان ٹرمپ کے لہجے میں نمایاں شدت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگرچہ کسی باضابطہ فوجی کارروائی کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، لیکن ان کے بیانات سے تہران کی طرف بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ انداز کا پتہ چلتا ہے، جس نے اب تک کشیدگی کو کم کرنے اور ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کی ہے۔
ایرانی قیادت کی طرف سے ابھی تک کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن علاقائی تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ دونوں طرف سے اعلیٰ سطحی شخصیات کی اشتعال انگیز بیان بازی سفارت کاری کو مشکل سے مشکل بنا سکتی ہے۔
جیسے جیسے کشیدگی بڑھ رہی ہے، تمام نظریں واشنگٹن، تہران اور تل ابیب پر ہیں کہ وہ اگلے اقدام کے لیے جو مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک انتہائی غیر مستحکم باب بن سکتا ہے۔