لاہور – پنجاب میں شیروں اور دیگر بڑی بلیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکام نئی قانون سازی کے تحت نس بندی کے اقدامات پر عمل درآمد کریں گے۔
تمام بریڈنگ فارمز کو اپنی بڑی بلیوں کو رجسٹر کرنا ضروری ہے، فی جانور 50,000 روپے کی رجسٹریشن فیس کے ساتھ۔ شیروں اور بچوں کی خرید و فروخت پر سختی سے پابندی ہے اور ان کے ساتھ ویڈیو سوشل میڈیا پر بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جنرل مدثر ریاض ملک نے کہا کہ اس قانون کا مقصد بڑی بلیوں کی آبادی کو محدود کرنا ہے جن میں شیر، شیر، پوما، چیتا اور جیگوار شامل ہیں۔ اگر مالکان اپنے جانوروں کی رجسٹریشن میں ناکام رہے تو انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔ اگر افزائش کا فارم شیروں کی اجازت شدہ تعداد سے زیادہ ہو تو مالک انہیں فروخت نہیں کر سکتا لیکن وہ انہیں چڑیا گھر یا افزائش نسل کی کسی اور سہولت کو عطیہ کر سکتا ہے۔ شیروں کو تحفہ دینا بھی ممنوع ہے۔
بڑی بلیوں کو پالتو جانور کے طور پر رکھنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت نے ایک “فیز آؤٹ پلان” متعارف کرایا ہے۔ مالکان کے پاس اپنے جانوروں کو ظاہر کرنے کے لیے 15 دن ہوں گے، اس کے بعد رجسٹریشن کی لازمی مدت ہوگی۔ رجسٹریشن کے بعد، مالکان کو اپنے جانوروں کے لیے مخصوص رہائش کے معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔
مزید برآں، افزائش نسل پر پابندیاں نافذ کی جائیں گی، اور فارم کے مالکان کو اپنے جانوروں کو جراثیم سے پاک کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔ بڑی بلیوں کو گھر میں رکھنے کی اب اجازت نہیں ہوگی اور ایسے جانوروں کو افزائش کے فارموں یا چڑیا گھروں میں منتقل کیا جائے گا۔
جانوروں کی رجسٹریشن نہ کرانے والوں کے خلاف بھاری جرمانے اور ضبطی سمیت سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس قانون سازی کا مقصد بڑی بلیوں کی غیر قانونی تجارت کو روکنا ہے، ان کی فروخت، تحفہ دینے یا سوشل میڈیا کے مواد پر پابندی لگانا ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کا اندازہ ہے کہ صوبے میں 200 سے 300 شیر اور دیگر بڑی بلیاں ہیں۔ رجسٹریشن فیس ان کی آبادی کا پتہ لگانے اور بہتر ضابطے کو یقینی بنانے میں مدد کرے گی۔