پشاور – طورخم بارڈر کراسنگ پر مسلسل چوتھے روز بھی صورتحال کشیدہ ہے، کیونکہ تجارتی سرگرمیاں اور پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت تعطل کا شکار ہے۔ طویل بندش سے سیکڑوں مسافر سرحد کے دونوں جانب پھنسے ہوئے ہیں اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا شدید مالی نقصان پہنچا ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات زیرو پوائنٹ پر ہوئے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہوگئی اور آج بات چیت کا ایک اور دور متوقع ہے، کیونکہ اسلام آباد اور کابل جاری مسائل کو حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
طورخم بارڈر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ ہے، جو حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، سرحدی تنازعات اور جھڑپوں کی وجہ سے بار بار بند ہوا ہے۔ موجودہ تعطل کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان نے پاکستان گیٹ پر ایک سائن بورڈ لگانے کی کوشش کی، یہ ایک ایسا اقدام تھا جسے افغان فریق کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ایک حفاظتی چوکی تعمیر کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ صورتحال اس وقت شدت اختیار کر گئی جب افغان فورسز نے ایک متنازعہ علاقے میں چوکی قائم کرنے کی کوشش کی، جس سے پاکستان نے کام کو روک دیا۔
بندش کی وجہ سے اہم خلل پڑا، مسافروں اور کاروبار دونوں کو بڑھتی ہوئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تجارت میں تعطل نے مقامی تاجر برادری کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ برآمدات اور درآمدات بدستور معطل ہیں۔
یہ حالیہ بندش کشیدگی کے واقعات کے درمیان ہوئی ہے، بشمول اگست میں افغان طالبان کے دعوے کے بعد کہ پاکستانی لڑاکا طیاروں نے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ دسمبر میں، افغانستان میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانے والے پاکستانی فضائی حملوں کی اطلاعات کے بعد مزید تصادم پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں افغان حکام نے شہری ہلاکتوں کا دعویٰ کیا۔