لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں غیر اخلاقی مواد کی تشہیر اور موثر ضابطے کے بغیر کام کرنے کے الزامات پر یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
درخواست، جس میں وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو مدعا علیہ کے طور پر درج کیا گیا ہے، دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پلیٹ فارم بلیک میلنگ، غیر اخلاقی مواد پھیلانے اور جعلی ویڈیوز کی گردش کے مرکز بن چکے ہیں۔ اس کا استدلال ہے کہ بہت سے پاکستانی یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال خالصتاً مالی فائدے کے لیے نامناسب مواد شیئر کرنے کے لیے کر رہے ہیں، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ریگولیٹری نگرانی نہیں ہے۔
درخواست گزار نے یوٹیوب، فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر مواد تخلیق کرنے والوں کے لیے لائسنسنگ سسٹم کی عدم موجودگی پر بھی تنقید کی ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ضابطے کی یہ کمی نقصان دہ اور گمراہ کن مواد کے پھیلاؤ کو قابل بناتی ہے۔ پٹیشن کے مطابق، TikTok اور Instagram خاص طور پر پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ وہ مبینہ طور پر ناظرین کا استحصال کرتے ہیں اور غیر اخلاقی طریقوں سے آمدنی پیدا کرتے ہیں۔
پٹیشن ایک قابل ذکر تشویش کو اجاگر کرتی ہے: وی لاگز میں خاندان کے افراد، خاص طور پر خواتین کی تصویر کشی۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کی تصویر کشی روایتی خاندانی اقدار اور معاشرتی اصولوں کو ختم کرتی ہے۔ پٹیشن میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بہتر ریگولیشن کو یقینی بنانے اور سماجی معیارات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سٹیزن پروٹیکشن رولز کو سختی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کچھ پلیٹ فارمز پر پابندی کی درخواست کرنے کے علاوہ، درخواست گزار نے عدالت پر زور دیا ہے کہ وہ مواد تخلیق کرنے والوں کے لیے ایک لازمی لائسنسنگ سسٹم متعارف کرائے، جو انھیں آن لائن تیار اور شیئر کیے جانے والے مواد کے لیے جوابدہ ہوگا۔