2010 ء کی بات ہے جب ہم اپنے بچوں کو محض اس لئے کینیڈا سے واپس پاکستان سکولنگ کےلئے لے کر آگئے کہ کینیڈا کے سکولز میں کوئی کتاب ‘ سلیبس یا لکھائی پر توجہ تھی نہ مشق ‘ بس کھیل اور فن تھا ۔ ہمیں یہ اچھا نہیں لگا اور ہم نے بچوں کی پڑھائی پاکستان میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا اور ہمارے دوست ہمیں اس پر نظر ثانی کا باربار کہتے رہے ۔لیکن ہم نے لچک نہیں دکھائی ۔ ہمارے پیش نظر مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں رہ کر بچے پڑھائی میں زیادہ محنت کرتے ہیں ۔ان کی یاد داشت اور لکھائی کی قوت بڑھے گی ۔ فیملی کی سطح پر انہیں اپنے بڑے بزرگوں ‘ قریبی رشتہ داروں اور کزنز کے ساتھ وقت گزارنے سے اپنے خاندان ‘روایات اور ثقافت سے آشنائی اور تعلق مضبوط ہوگا ۔
کینیڈا میں وہ سکول کی لائبریری سے روزانہ کی بنیاد پر کتابیں پڑھنے کے عادی ہو چکے تھے۔ایک بیٹے نے ایک ماہ زیادہ کتب پڑھنے کے مقابلے میں سکول کی طرف سے پیزے کے کوپن بھی انعام میں جیت لئے تھے ۔ پاکستان میں آکر مجھے بڑی پریشانی لاحق ہوئی کہ ان بچوں کو کتب پڑھنے کے لیے کہاں لے جایا جائے؟ کیونکہ ان کے سکول میں کوئی لائبریری نہیں تھی. وہ مجھے اس بارے کہتے بھی رہتے تھے ۔
ایک دن میں نے ان کو گاڑی میں بٹھایا اور بڑے اہتمام سے قائد اعظم پبلک لائبریری جا کر پارکنگ کی ۔ بچوں کے ساتھ عمارت کے اندر داخل ہوئے تو بچے بڑے پرجوش تھے کہ اتنی بڑی لائبریری میں ائے ہیں تو ان کو اچھی اچھی کتابیں ملیں گی ۔ سچی بات یہ ہے کہ لاہور میں نوائے وقت میں کئی سال تک بطور سب ایڈیٹر /فیچر رائٹر کام کرنے کے باوجود اس لائبریری میں آنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔
جیسے ہی کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے ہم سے پوچھا کہ “جی آپ کدھر”؟ ہم نے بتایا کہ لائبریری ائے تو انہوں نے فرمایا” اگر آپ اس لائبریری کے ممبر نہیں ہیں تو آپ اس میں داخل نہیں ہو سکتے “. ان کا لہجہ بڑا سپاٹ تھا ۔ جب پوچھا کہ” آپ لائبریری کی ممبرشپ کا طریقہ کار بتا دیں”؟ اس پر جواب ملا ” آپ ممبر اس لیے نہیں بن سکتے کہ یہ بچے چھوٹی کلاسز میں ہیں اور یہ لائبریری ریسرچ لائبریری ہے ۔ صرف ماسٹرز اور پی ایچ ڈی لیول کے لوگ ممبرشپ لے کر یہاں کتب سے استفادہ کر سکتے ہیں”. میں نے عرض کیا کہ یہ بات تو سمجھ آ گئی ہے لیکن ہم غلطی سے اگر یہاں آ گئے ہیں تو یہ بچے کینیڈا سے ائے ہیں ۔ ان کو کتب پڑھنے کا شوق ہے اور پاکستان میں یہ لائبریری سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان کو صرف لائبریری دکھا ہی دی جائے ۔
موصوف نے فرمایا کہ ہرگز نہیں آپ کو لائبریری دیکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں بڑا پرسکون ماحول ہے اور بچوں کا یہاں داخلہ منع ہے۔ اس انکار پر بچے میرے میری طرف دیکھ رہے تھے تو میں شرمندگی سے ان کی طرف دیکھ نہیں پا رہا تھا کہ میں ان کو کس ملک میں اور کس جگہ پہ لے ایا ہوں ۔جہاں کتاب موجود ہے لیکن اس کو پڑھنے یا دیکھنے کے لیے کوالیفائی کرنا اور ضابطوں کی پابندی کرنا لازمی ہے۔ اتنی بڑی عمارت ‘ اتنا بڑا نام اور اتنی زیادہ تعداد میں کتابیں ہونے کے باوجود ان تک رسائی نہیں ہو سکتی ۔ جس قوم کی ترجیح یہ ہو کہ بچے کو کتب تک رسائی کے لیے ضابطوں سے گزرنا پڑے گا اس کے مستقبل کے بارے خدشات کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد مایوسی کے عالم میں وہاں سے نکلے تو مال روڈ پر ہی انارکلی اور عجائب گھر کے پاس پنجاب پبلک لائبریری جا کر رکے۔ کیونکہ میرا پروگرام یہی تھا کہ بچوں کو کسی نہ کسی لائبریری میں لے جا کر یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں بھی لائبریریز فعال ہیں اور کتب پڑھنے کے معاملے میں آسانی بھی ہے ۔ پنجاب پبلک لائبریری جا کر رکے تو بچوں نے پرانی عمارت دیکھ کر اس کو عجائب گھر ہی سمجھا ۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو وہاں کوئی خاص پوچھ گچھ نہیں ہوئی لیکن اس کے مین ہال میں مختلف رسائل ریکس کے اوپر رکھے ہوئے تھے اور وہاں ایک دو حضرات بیٹھے تھے جن کو موٹے موٹے شیشوں والی عینک لگی تھی اور وہ کچھ کتب یا میگزین کی ورق گردانی کر رہے تھے ۔ انہوں نے ہمیں حیرت سے دیکھا کہ پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اس لائبریری میں آگئے ہیں؟ قصہ مختصر یہ ہے کہ وہاں کی ویرانی اور ہو کے عالم کو دیکھ کر ایسے ہی ایک چکر لگایا اور فورا باہر نکل ائے ۔
اس کے بعد بچوں کو میں لبرٹی بکس اکثر لے کر جاتا تھا جہاں کم از کم یہ ازادی تھی کہ بچے گھوم پھر کے کتاب دیکھ لیتے تھے اور پڑھنے کے لیے بھی بیٹھنے کا ایک ماحول تھا ۔
ایکسپو سینٹر لاہور میں بک فیئر ایک بہت بڑا ایونٹ ہونا شروع ہوا ۔ ہر سال میں بچوں کو خاص طور پر اس نمائش میں لے کر جاتا رہا اور میری کوشش یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے گھوم پھر کر جتنی مرضی کتب خریدنا چاہیں خرید لیں ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بچوں کا جو تعلق کینیڈا میں کتاب سے قائم ہوا ہے وہ ماند پڑ جائے۔ لاہور میں باقاعدگی سے ہر سال بک فیئر کا انعقاد یقینا بہت بڑی نعمت ہے اور اس کے منتظمین کو داد دینا بجا ہے۔
اردو بازار کے ہمارے پبلشر دوست طہ صاحب سے ایک دن بات ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ ان کا کاروبار اچھا چل رہا تھا اور سال میں ایک بار ان کو پنجاب کی لائبریریز میں کتب کی خرید کے سلسلے میں کچھ آ رڈر بھی مل جاتے تھے ۔ جس سے ان کو مالی فائدہ بھی ہو جاتا تھا۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ بتایا کہ شہباز شریف کے پنجاب میں آخری دور میں سکول اور کالجز کی لائبریری کے لیے کتب کی خرید کے فنڈ کو سرے سے ہی ختم کر دیا گیا۔ آج بھی صورتحال وہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لائبریری اور کتاب حکومت کی ترجیح نہیں رہی اور اس کی بجائے کتب کی خرید کے فنڈز کو کسی اور ترقیاتی کاموں میں لگانا مناسب سمجھا گیا تھا۔ اس وقت دیکھیں تو پنجاب میں اسی خاندان کی حکومت ہے اور اگر ہمارے پبلشر دوست کی یہ بات درست ہے تو ایسے میں ایکسپو سینٹر میں روایت کے مطابق کتب کی اتنی بڑی نمائش جس کو ہزاروں لوگ وزٹ کرتے ہیں ایک بہت بڑی قابل قدر کوشش ہے ورنہ جس طرح حکومت مختلف اقدامات کر رہی ہے اس بک فیئر کو بھی سبوتاژ کر سکتی تھی۔
بک فیئر کے منتظمین کے ساتھ ان تمام پبلشرز اور ہزاروں کتاب دوستوں اور خریداروں کے جذبے اور کوشش کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے کتب کی نمائش سے کسی حد تک اس قوم کا تعلیم ‘مطالعہ’ تحقیق اور ترویج و اشاعت سے تعلق کا بھرم باقی دنیا کی نظروں میں قائم رکھا ہوا ہے۔
میں ذاتی طور اپنے دوست اور مہربان جناب شعیب مرزا (ایڈیٹر پھول) اور فاروق بھٹی( ایڈوائس) سمیت دیگر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو ہر سال اس بک فیئر کی جان ہوتے ہیں ۔ ایسے احباب کی کوشش سے ہمارا شمار دنیا میں کتاب دوستوں کی فہرست میں تو ہوتا ہے بھلے بہت ہی نچلے درجے پر ۔
جس ملک میں جوتیاں ایئر کنڈیشن دکانوں اور شیشے کے ریکس میں پڑی ہوں اور کتب فٹ پاتھ اور ردی کی ٹوکریوں میں پڑی ہوں وہاں کسی خیر ‘بھلائی ‘ترقی اور بھائی چارے کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔