یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں آپ کے والدین اور استاد ہی سچے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ہمارے پرائمری سکول کے استاد شیخ محمد اختر گذشتہ روز چونیاں میں خالق حقیقی سے جا ملے ۔استاد شیخ اختر صاحب اپنی تمام سروس پرائمری سکول کوٹ گاماں جو چونیاں سے 6 کلو میڑ دور پتوکی روڈ پر واقع ہے میں مکمل کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے تو ان کے اعزاز میں میرے سمیت ان کے شاگردوں ذوالفقار علی بھٹی ‘حفیظ وٹو ‘محمد افضل ‘جمیل احمد سمیت دیگر نے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا ۔اس تقریب میں استاد شیخ اختر صاحب نے اہلیان گاؤں اور بالخصوص اپنے شاگردوں کا اپنی عزت افزائی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے دل کی باتیں بھی کیں ۔
جنکا خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے سکول میں تدریس کے دوران ایمانداری سے فریضہ انجام دینے کی پوری کوشش کی اور کبھی وقت ضائع نہیں کیا ۔وقت پر سکول پہنچتے رہے اور تمام بچوں سے یکساں سلوک کیا ۔انہوں نے کہا کہ سروس کے اختتام پر میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے ایک استاد کی حیثیت سے اپنی زمہ داری پوری کی ہے۔آخر میں وہ آب دیدہ ہوگئے اور ہمیں بھی افسردہ کر دیا تھا ۔اس موقعہ پر ہمارے بزرگ سید مقصود علی شاہ گیلانی خاص طور پر استاد شیخ اختر صاحب کی عزت افزائی کے لئے شریک ہوئے اور انہیں تحائف بھی دیئے ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد استاد صاحب سے چونیاں میں ملاقات ہو جایا کرتی تھی کیونکہ ان کے بھائی سرور بک ڈپو کے نام سے کاروبار کرتے تھے اور آپ بھی اس دکان پر مل جاتے ہیں ۔آپ نے ہمیشہ ہمیں اپنے بچوں کی طرح شفقت اور احترام دیا اور چائے کا پوچھتے تھے۔ان کے خاندان نے تعلیم اور کتب کے ساتھ ناطہ جوڑے رکھا تھا ۔آپ کے بھائی اور بیٹے بھی تدریس سے وابستہ ہیں ۔کافی سال بیت گئے ایک بار استاد شیخ اختر صاحب نے میری جناح ہسپتال جاب کے دوران کہا کہ مجھے اپنا چیک اپ کروانا ہے ۔
میں نے کہا کہ جب مرضی تشریف لے آئیں ۔ایک دن مجھے فون کیا کہ میں لاہور ہسپتال آرہا ہوں ۔میں نے کہا کہ آپ جناح ہسپتال آکر ایکسرے ڈیپارٹمنٹ آجائیں ۔میں وہیں ملوں گا آپ کو ۔کئی گھنٹے بعد مجھے فون آیا کہ میں ہسپتال میں ہوں لیکن مجھے آپ کا ڈیپارٹمنٹ نہیں مل رہا ۔میں نے بتایا کہ وہ تو گراؤنڈ پر ہی ہے ۔کہنے لگے کہ میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے لفٹ سے اوپر جانے کا کہا ۔اب اوپر آکر پتہ نہیں چل رہا ۔میں نے جب پوچھا کہ آپ کون سے فلور پر ہیں تو وہ بتا نہ سکے ۔دراصل استاد صاحب انتہائی سادہ طبعیت کے آدمی تھے اور ہسپتال ایسی بھیڑ سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا نہیں تھا ۔ان کا فون بند ہوگیا تو میں جلدی سے لفٹ کے ایریا میں گیا ۔لیکن کوشش بسیار کے باوجود وہ مجھے مل نہ سکے اور ان کا نمبر بھی نہیں مل رہا تھا ۔میں سمجھا استاد صاحب مجھے فون کریں گے میں انہیں ڈھونڈ لوں گا ۔گھنٹہ بھر کے بعد جب ان کا نمبر ملا تو کہنے لگے” میں تو بہت گھبرا گیا تھا اور ہسپتال سے نکل کر واپس چونیاں جا رہا ہوں ”
مجھے بہت شرمندگی اور افسوس ہوا ۔جب میں چونیاں گیا تو میں استاد صاحب سے ملا اور اس پر ان سے معافی مانگی کہ آپ ہسپتال آئے اور میں آپ کو مل نہیں پایا آپ کو زحمت اٹھانا پڑی ۔انہوں نے خندہ پیشانی سے کہا” کوئی بات نہیں اس میں تمہارا بھی قصور نہیں”۔ آخری بار سال پہلے اچانک لاہور میں استاد صاحب کا فون آیا کہ میں استاد اختر بول رہا ہوں ۔میں نے سلام ودعا کے بعد دریافت کیا کہ میرے لائق کوئی خدمت ؟ اس پر کہنے لگے کہ ہمارے بچے آپ کے دوست قیصر غوری کے سکول میں پڑھتے ہیں اور وہ ان کی فیس میں اضافہ کر رہے ہیں تو آپ ان سے سفارش کر دیں کہ وہ بچوں کی فیس میں اضافہ نہ کریں ۔میں نے جواب میں یقین دلایا کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔میں غوری صاحب سے ابھی بات کرکے کہہ دیتا ہوں۔
غوری صاحب نے بعد میرے میری درخواست پر اضافہ موخر کردیا تھا۔ گذشتہ سال کینیڈا آنے سے پہلے مجھے معلوم ہوا کہ استاد اختر صاحب کی طبیعت ناساز رہتی ہے ۔میں نے غوری صاحب کو کہا کہ استاد صاحب کی مزاج پرسی کے لئے چلنا ہے ۔مگر بھاگ دوڑ میں ممکن نہ ہوسکا۔ اور گزشتہ روز استاد صاحب کے انتقال کی خبر مل گئی ۔ استاد بھی روحانی والدین ہوتے ہیں اور ان کے احسانات کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا ۔ دعا کہ اللہ کریم استاد اختر صاحب کی کامل بخشش اور درجات بلند فرمائے آمین ۔