نئی دہلی – سندھ آبی معاہدے کو معطل کرنے کے ہفتوں بعد، بھارت اب متنازعہ لداخ کے علاقے میں جارحانہ ڈیم کی تعمیر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
متنازعہ لداخ کے علاقے میں دریائے سندھ پر ہائیڈرو پاور کے دس بڑے منصوبوں کو شروع کرنے کے حالیہ اقدام نے پاکستان میں شدید تحفظات پیدا کیے ہیں، کیونکہ ماہرین نے علاقائی آبی سلامتی کو لاحق خطرات سے خبردار کیا ہے۔
نئے پراجیکٹس بشمول اچینتھانگ سنجک، پارفیلہ، سونٹ (بٹالک) اور خالصتی مغربی دریاؤں پر پانی کے بہاؤ کو محدود کریں گے، جو پاکستان میں بہتے ہیں۔ پاکستانی آبی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت IWT کی جانب سے مقرر کردہ ذخیرہ اور استعمال کی حد سے تجاوز کر سکتی ہے، جس پر 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی سے دستخط کیے گئے تھے۔
سنگین صورتحال کے درمیان، پاکستان نے بھارت پر پانی کو سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ منصوبے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں زبردست کمی کا باعث بن سکتے ہیں جو ممکنہ طور پر زرعی اور ماحولیاتی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
“متنازع علاقے میں پانی کا یکطرفہ کنٹرول نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ عالمی آبی سفارت کاری کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے،” حکام نے خبردار کیا۔
انہوں نے لداخ میں وسائل تک فوجی اور شہری رسائی کے درمیان تفاوت کو بھی اجاگر کیا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ سیاچن میں تعینات فوجیوں کے لیے جہاں پراجیکٹس کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے، مقامی آبادی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کا شکار ہے۔
پاکستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پانی کے بنیادی ڈھانچے پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خطرہ قرار دیا جس سے سیاسی کشیدگی کے وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہائیڈرو پاور کے اقدامات کی تازہ ترین لہر نے اسلام آباد کے خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔