پاکستان میں پنجابی زبان کی اہمیت اور میڈیا کا مستقبل

رانا کامران اشرف

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تاہم اس ترقی کے باوجود ایک اہم پہلو ابھی تک نظرانداز کیا گیا ہےاور وہ ہے پنجابی زبان کی میڈیا میں موجودگی۔
پنجابی نہ صرف پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے بلکہ یہ ایک ایسا ثقافتی ورثہ بھی ہے جو پاکستان میں غالب معاشرت کی عکاس ہے۔ پاکستان میں کوئی مستقل یا نمایاں پنجابی ٹیلی ویژن چینل نہیں ہےجو پنجابی زبان میں باقاعدہ پروگرامز اور خبریں نشر کرے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی مقامی زبان، جو قومی زبان اردو کے مقابلے میں اپنا حق ادا کرنے میں ناکام ہے، آج بھی بے شمار مسائل کا شکار ہے۔

پنجابی زبان کی ترویج اور اس کا تحفظ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، جہاں اکثریتی آبادی پنجابی زبان بولتی ہے۔ تاہم، پنجابی زبان کے لیے حکومت کی جانب سے وہ اقدامات نہیں کیے گئے جن کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، اور انگریزی کا استعمال بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن پنجابی زبان کو اس اہمیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پنجابی کو پنجاب کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم تسلیم کیا جائے اور اسے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے۔ اگر ہم اپنی ثقافت اور زبان کی اصل شکل کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، تو یہ قدم اٹھانا ضروری ہے۔

پاکستان میں موجودہ میڈیا کے منظرنامے میں پنجابی زبان کے چینلز اور پروگرامز کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ایک باقاعدہ پنجابی ٹیلی ویژن چینل کا قیام اس خلا کو پر کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ایسا چینل نہ صرف پنجابی ثقافت، زبان، اور تاریخ کو اجاگر کرے گا، بلکہ یہ عوام کو وہ خبریں اور معلومات فراہم کرے گا جو انہیں روزمرہ زندگی میں درکار ہیں۔ اب بھی پنجابی زبان کے لائسنس رکھنے والے ٹی وی چینلز بھی اردو مواد تک محدود ہیں۔

یہ چینل حالات حاضرہ، ملکی اور بین الاقوامی خبریں، اور تعلیمی پروگرامز کو پنجابی میں نشر کرکے نہ صرف زبان کی ترویج کرے گا، بلکہ لوگوں میں علم اور آگاہی کی سطح کو بھی بڑھائے گا۔ اس کے علاوہ، اس چینل کی مدد سے پنجابی کلچر، ادب، اور موسیقی کو عالمی سطح پر پروموٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے سنو ٹی وی نے پہلا قدم اٹھایا ہے جس میں سنو پنجاب کے نام سے باقاعدہ پنجابی پروگرام شروع کیا ہے جس میں گر مکھی اور شاہ مکھی رسم الخط میں لکھی ہوئی ٹکرز اور اس کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان، ثقافت اور تہذیب کو دکھایا جاتا ہے۔ مہمان پنجابی زبان کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ سنو پنجابی نہ صرف پاکستان بلکہ کینڈا، بھارت، گلف، امریکہ سمیت پوری دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والا پروگرام بن گیا ہے۔

پنجاب کی حکومت، خصوصاً وزیراعلیٰ مریم نواز شریف اور صوبائی کابینہ اس حوالے سے کام کر رہی ہے۔ پنجاب میں پنجابی زبان کی ترویج اور اس کی اہمیت کے بارے میں کئی منصوبے زیر غور ہیں۔ مریم نواز شریف نے اپنے بیان میں اس بات کا ذکر کیا کہ پنجاب کے عوام کی ثقافتی شناخت اور زبان کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کی قیادت میں، پنجاب حکومت نے اس حوالے سے ایک فریم ورک تیار کرنے کی کوشش کی ہے، جو پنجابی زبان کی تعلیم میں مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

دوسری عالمی پنجابی کانفرنس میں پنجابی زبان کی ترویج کے لیے اہم آواز احمد رضا پنجابی کی آئی ہے۔ احمد رضا پنجابی، جو “پنجابی پرچار” کے صدر ہیں، نے پنجابی زبان کو عالمی سطح پر پروموٹ کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ان کی قیادت میں پنجابی زبان کو فروغ دینے کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ احمد رضا پنجابی کا یہ اقدام یقیناً پنجابی زبان کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
ابھی بھی وقت ہے کہ پاکستان میں پنجابی زبان کے لیے ایک باقاعدہ میڈیا پلیٹ فارم قائم کیا جائے۔ اس پلیٹ فارم پر نہ صرف خبریں اور حالات حاضرہ پر مبنی پروگرامز نشر کیے جائیں، بلکہ تعلیمی پروگرامز، ثقافتی شو، اور پنجابی ادب کی ترویج کے لیے بھی مختلف پروگرامز ترتیب دیے جائیں۔ پنجابی زبان کی میڈیا میں موجودگی نہ صرف اس زبان کو زندہ رکھے گی، بلکہ یہ پنجاب کے لوگوں کی ثقافتی شناخت کو بھی مضبوط کرے گی۔

اس حوالے سے میڈیا انڈسٹری اور حکومت کے درمیان تعاون انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ پنجابی زبان کو فروغ دینے کے لیے ایک مستقل چینل کا قیام بڑا چیلنج ہو سکتا ہے، مگر اس کے فوائد دور رس ہوں گے۔

پاکستان میں پنجابی زبان کی ترویج کے لیے مختلف اقدامات اور کوششیں ہو رہی ہیں، مگر ان کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجابی میڈیا کا قیام نہ صرف پنجابی زبان کی بقاء کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ پاکستانی معاشرتی و ثقافتی تنوع کی عکاسی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اس سفر میں حکومت، میڈیا ہاؤسز اور پنجابی کمیونٹی کا فعال کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم آج اس مسئلے پر توجہ دیں، تو مستقبل میں پنجابی زبان اور ثقافت کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مل سکتا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کی شناخت کو تقویت ملے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی پنجابی زبان کو اس کا حق ملے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں